چاند پر سیٹلائٹ بھیجنے کا مشن، 8 ممالک میں سے پاکستان کو موقع کیسے ملا؟

مشن کی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں؟

پاکستان کا چاند پر پہلا سیٹلائٹ مشن ’آئی کیوب کیو‘ 3 مئی کو چین کے ہینان سپیس لانچ سائٹ سے روانہ ہو گا جو کہ انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر براہ راست نشر کیا جائے گا۔
پاکستان کا سیٹلائٹ مشن تین سے چھ ماہ تک چاند کے اطراف چکر لگائے گا۔ اس دوران سیٹلائٹ کی مدد سے چاند کی سطح کی مختلف تصاویر لی جائیں گی جو چین کے ڈیپ سپیس نیٹ ورک کے ذریعے ہی حاصل کی جائیں گی۔
انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی کے مطابق سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر کی مدد سے چاند کی سطح کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہو سکیں گی۔ مشن سے پاکستان کے سپیس پروگرام کو بھی وسعت ملے گی۔ انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی میں ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ اور ’آئی کیوب کیو‘ مشن کی ٹیم کے کور ممبر ڈاکٹر خرم خورشید کے مطابق ’اُن کے ادارے نے چین کی شنگھائی یونیورسٹی اور پاکستان نیشنل سپیس ایجنسی ’سپارکو‘ کے ساتھ مل کر آئی کیوب سیٹلائٹ کو ڈیزائن اور تیار کیا ہے۔‘
’آئی کیوب کیو‘ دو آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے کے لیے استعمال ہوں گے۔ ٹیسٹنگ اور قابلیت کے مرحلے سے کامیابی سے گزرنے کے بعد ’آئی کیوب کیو‘ کو ’چینگ 6‘ مشن کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
چھوٹا سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کے لیے پاکستان کیسے کامیاب ہوا؟
ڈاکٹر خرم خورشید نے بتایا کہ ’ایشیا پیسیفک سپیس کوآپریشن آرگنائزیشن (ایپسکو) کے ممبر ممالک کے لیے یہ ایک موقع تھا کہ وہ چین کے چاند مشن ’چینگ 6‘ کے ساتھ اپنا چھوٹا سیٹلائٹ بھی خلا میں بھیج سکیں۔‘
اُنہوں نے مزید بتایا کہ ’ایپسکو کی پیش کش پر رکن ممالک نے اپنی اپنی پروپوزل بھیجیں۔ پاکستان کی جانب سے انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی نے پروپوزل جمع کرائی۔‘
ایپسکو کے ماہرین نے تمام رکن ممالک کی پروپوزلز کا بخوبی جائزہ لیا اور 8 ممالک میں سے صرف پاکستان کی پروپوزل کو قبول کیا، یوں پاکستان کو اپنا چھوٹا سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کی اجازت مل گئی۔
ایپسکو کے رکن ممالک کون کون سے ہیں؟
ایپسکو کے ممبر ممالک میں پاکستان، چین، بنگلہ دیش، ایران اور پیرو شامل ہیں۔ان کے علاوہ تھائی لینڈ، منگولیا اور ترکیہ بھی ایپسکو کے رکن ممالک ہیں۔
ایپسکو کے ممبر ممالک میں سے صرف پاکستان کو اجازت کیسے ملی؟
ڈاکٹر خرم خورشید کے مطابق ’انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی پاکستان (آئی ایس ٹی) چھوٹے سیٹلائٹ پر پہلے بھی کام کرتا رہا ہے۔ آئی ایس ٹی نے 2009 میں کیوب سیٹلائٹ (چھوٹے سیٹلائٹ) پر کام شروع کیا تھا۔‘
’اس سے قبل 2013 میں آئی ایس ٹی نے زمین کے گرد گھومنے والا چھوٹا سیٹلائٹ خلا میں بھیجا تھا، لہٰذا ان تجربات کی بنیاد اور متاثرکن پروپوزل کو دیکھ کر اس بار پاکستان کو خلا میں اپنا چھوٹا سیٹلائٹ بھیجنے کا موقع دیا گیا۔‘
سیٹلائٹ بنانے میں دو سال کا عرصہ لگا: آئی ایس ٹی
ڈاکٹر خرم خورشید کہتے ہیں کہ ’دو سال کے عرصے میں ’آئی کیوب کیو‘ کو تیار کیا گیا ہے۔ ان دو برسوں کے دوران مخلتف ٹیسٹ کیے گئے جس کے لیے نہ صرف سپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کی معاونت حاصل رہی بلکہ شنگھائی یونیورسٹی نے بھی تعاون کیا۔
مشن کو چاند پر بھیجنے کے اخراجات چین کے ذمہ ہیں: آئی ایس ٹی
پاکستان کا چھوٹا سیٹلائٹ چاند پر بھیجنے کا مشن چین کے ’چینگ 6‘ سے جُڑا ہے۔ ڈاکٹر خرم خورشید کا کہنا ہے کہ ’ایپسکو اور چین ہی اس مشن کے تمام اخراجات اٹھائیں گے۔ پاکستان کو صرف سیٹلائٹ بنانے کے اخراجات برداشت کرنا پڑے ہیں جو کوئی زیادہ رقم نہیں بنتی۔‘
مشن کی کامیابی کے امکانات کتنے ہیں؟
انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی پاکستان کے ڈاکٹر خرم خورشید نے بتایا کہ ’چین کو خلا میں مشن بھیجنے کا خاصا تجربہ حاصل ہے۔‘
’پاکستان کا چھوٹا سیٹلائٹ بھی چین کے چھٹے مشن کے ساتھ خلا میں بھیجا جائے گا۔ اُمید ہے کہ پاکستان کا ’آئی کیوب کیو‘ چین کے مشن کے ساتھ کامیابی سے خلا میں پہنچے گا۔‘
پاکستان کا سیٹلائٹ تین سے چھ ماہ تک خلا میں رہے گا: آئی ایس ٹی سیٹ سیٹلائٹ ’آئی کیوب کیو‘ چھوٹے سیٹلائٹ ہیں جو اپنے چھوٹے سائز اور معیاری ڈیزائن کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔
سیٹلائٹ میں دو آپٹیکل کیمرے (موبائل کے کیمرے) نصب کیے گئے ہیں جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے کے لیے استعمال ہوں گے۔ پاکستان کا سیٹلائٹ تین سے چھ ماہ تک خلا میں رہ سکے گا۔
’آئی کیوب کیو‘ سیٹلائٹ کی کور کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر خرم خورشید کے خیال میں ’کیوب سیٹس کو مختلف مشنز کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔‘
’کیوب سیٹس کو زمین کا مشاہدہ کرنے، ماحول کا مطالعہ کرنے، ریموٹ سینسنگ، مواصلات کی سہولت فراہم کرنے، فلکیات اور نئی ٹیکنالوجی کے مظاہرے کے لیے استعمال کیا گیا۔‘
’اپنے چھوٹے سائز اور بڑے سیٹلائٹس کے مقابلے میں کم لاگت کی وجہ سے کیوب سیٹس نے یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور تجارتی کمپنیوں کو خلائی مشنوں میں حصہ لینے اور سائنسی ترقی اور اختراع کے لیے اہم ڈیٹا اکٹھا کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔‘
ایروسپیس انجنیئر ڈاکٹر فضیل محمود خان سمجھتے ہیں کہ ’کیوب سیٹ‘ یونیورسٹیوں کی تحقیق کے لیے ایک اچھا تجربہ ثابت ہو سکتا ہے مگر ملکی سطح پر یہ کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’کیوب سیٹ‘ بنیادی طور پر ایک چھوٹا سیٹلائٹ ہوتا ہے جو مختلف جامعات یا تحقیقاتی ادارے اپنی تحقیق کے استعمال کرتے ہیں۔‘
’یہ طلبہ یا اداروں کو ایروسپیس میں تحقیق کے لیے فائدہ دے سکتا ہے، تاہم ملکی سطح پر اسے بڑی کامیابی نہیں سمجھا جا سکتا۔‘
انڈیا کے چاند مشن ’چندریان 3‘ اور پاکستان کے سیٹلائٹ مشن ’آئی کیوب کیو‘ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فضیل محمود خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے سیٹلائٹ کا انڈین مشن کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔‘
انڈیا نے ’چندریان 3‘ کے ذریعے تاریخ میں پہلی مرتبہ چاند کے قطبِ جنوبی پر لینڈ کیا جبکہ پاکستان کے سیٹلائٹ کو چین اپنے مرکزی مشن کے ساتھ شامل کر کے راستے میں یعنی خلا میں چھوڑ جائے گا جو چاند کے اطراف چکر لگائے گا۔‘
فضیل خان کے خیال میں ’پاکستان کا سپیس پروگرام ابھی بھی 60 اور 70 کی دہائی میں کھڑا ہے جو کہ حقیقت میں آگے بڑھنے کے بجائے غلط سمت میں چل رہا ہے۔‘
پاکستان کو سپیس پروگرام پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں چین کا تعاون ضرور حاصل کرنا چاہیے، تاہم سپیس پروگرام میں کسی دوسرے ملک پر مکمل انحصار کامیابی کا ضامن نہیں ہو سکتا۔‘

Views= (521)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین