کیا آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل

مجھے 34 سال اس شعبے میں ہوگئے مگر پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے حوالے سے انٹراکورٹ اپیل پر سماعت کی، 7 رکنی آئینی بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے چوتھے روزبھی دلائل جاری رکھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر مطمئن کریں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے وہ فیصلہ سناتا ہے، جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے 34 سال اس شعبے میں ہوگئے مگر پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔
جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ عام تاثر ہے کہ خصوصی عدالت میں ٹرائل صرف سزا دینے کی حد تک ہوتا ہے، مناسب ہوتا آگاہ کردیتے کہ خصوصی عدالتوں میں ٹرائل کن مراحل سے گزرتا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہاکہ خصوصی عدالت میں بطوروکیل صفائی پیش ہوتا رہا ہوں، ملزم کے لیے وکیل کے ساتھ ایک افسر بطور دوست بھی مقرر کیا جاتا ہے، ٹرائل میں وکلا کے دلائل بھی شامل ہوتے اور گواہان پر جرح بھی ہوتی، فرق صرف اتنا ہے کہ خصوصی عدالت میں جج افسربیٹھے ہوتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل ایک حد تک سنی جاسکتی ہے، فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل میں صرف بدنیتی اور دائرہ اختیار دیکھا جاسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل میں میرٹس زیر بحث نہیں آسکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ ہماری 7 لاکھ سے زائد فوجی جوانوں کے حقوق کا بھی سوال ہے ہم یہاں عام شہری اور فوجی جوان سب کوانصاف دینے کے لیے بیٹھے ہیں، فوج میں جن کے خلاف فیصلے آئے ان کو بھی دوسری عدالتوں میں اپیل کا حق ہونا چاہیئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل ایک حد تک سنی جاسکتی ہے، فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل میں صرف بدنیتی اور دائرہ اختیار دیکھا جاسکتا ہے، فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل میں میرٹس زیر بحث نہیں آسکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ ہماری 7 لاکھ سے زائد فوجی جوانوں کے حقوق کا بھی سوال ہے ہم یہاں عام شہری اور فوجی جوان سب کوانصاف دینے کے لیے بیٹھے ہیں، فوج میں جن کے خلاف فیصلے آئے ان کو بھی دوسری عدالتوں میں اپیل کا حق ہونا چاہیئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خیرپختونخوا میں یہ صورتحال ہے کہ فوجی پرحملہ ہوتا ہے، حملہ کرنے والا اگر زندہ پکڑا جائے اسکا ٹرائل خصوصی کورٹ میں ہوتا ہے، ہوا میں جہاز ہائی جیک کرنے کا ایک واقعہ ہوا تھا ہائیکورٹ نے ٹرائل کیا تھا، 198 مسافروں کا معاملہ تھا وہ صرف ہائی جیکنگ کا معاملہ نہیں تھا، اس جہازمیں ایک جرنیل سوارتھا اس ایک بات پر ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ کا حصہ نہیں ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ اگر پارلیمنٹ ہائی جیکنگ کو بھی خصوصی ٹرائل میں ڈال دیں پھر کیا ہوگا؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ اگر کوئی فوجی لڑاکا طیارہ ہائی جیک ہوجائے تو آرمی ایکٹ کے مطابق ٹرائل ہوگا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس میں اور کیٹگری آرہی ہیں جو آرٹیکل 2 ون ڈی ون میں نہیں آتی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایک آرمی چیف کے طیارے کو ایئرپورٹ کی لائٹس بجھا کر کہا گیا ملک چھوڑ دو، اس واقعے میں تمام مسافروں کو خطرے میں ڈالا گیا جو بندہ جہاز میں موجود نہیں تھا وہ ہائی جیک کیسے کرسکتا تھا؟ اس جہاز میں تھوڑا سا ایندھن باقی تھا پھر بھی رسک پر ڈالا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ میں یہاں سیاسی بات نہیں کروں گا مگر بعد میں سپریم کورٹ نے جائزہ لیا تھا، سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھا جہاز میں کافی ایندھن باقی تھا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اس ایک واقعے کے باعث ملک میں مارشل لا لگ گیا لیکن مارشل لا کے بعد بھی وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چلا۔
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ میں درج جرم نہیں، اسی لیے وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ چلیں اس نکتے پر فرق واضح ہو گیا آگے چلیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ٹھہریں ایک سوال اور اس میں بنتا ہے، اگر ہائی جیک جنگی یا فوجی طیارے کو کیا جائے پھر ٹرائل کہاں چلے گا؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے آگاہ کیا کہ 9 مئی واقعات میں کل ملزمان 5 ہزارکے قریب تھے جن 105 ملزمان کو خصوصی عدالتوں میں لے جایا گیا جن کی جائے وقوعہ پرموجودگی کے ٹھوس شواہد ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ صرف ان افراد پر لاگو ہوتا ہے جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں، ہر دہشتگرد پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا فوجی عدالتوں نے ٹرائل انہی ایف آئی آرز کی روشنی میں کیا جو تھانوں میں درج ہوئی تھیں؟ تعزیرات پاکستان اور اے ٹی اے کے تحت درج مقدمات پر کارروائی فوجی عدالت کیسے کر سکتی؟ جو تین ایف آئی آرز کی کاپی ہمیں دی گئی ہے ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تفتیش کے بعد مزید دفعات شامل کی جا سکتی ہیں۔
جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مزید دفعات شامل کرنے کا الگ سے طریقہ کار موجود ہے، کیا پولیس تفتیش پر ہی انحصار کیا گیا تھا؟ جس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ جب ملزم فوجی تحویل میں جائے تو وہاں تفتیش کا اپنا نظام ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو صرف تین مقدمات پیش کیے ہیں، مجموعی طور پر 9 مئی کے 35 ایف آئی آرز اور 5 ہزار ملزمان ہیں۔ فوجی عدالتوں میں صرف ان 105 افراد کا ٹرائل ہو جن کی موجودگی ثابت تھی۔
بعدازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

Views= (99)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین