گھر والوں نے ایسا عمل کیا میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا: زارا کے شوہر کا بیان

ڈسکہ میں سگی خالہ اور نند کے ہاتھوں قتل ہونے والی زارا کے شوہر قدیر کا پہلی بار بیان سامنے آگیا۔
سیالکوٹ میں زارا کے شوہر نے کہا ہے کہ میں والدہ سے ملا اور بار بار پوچھا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ ہمارا کیا قصور تھا کہ ہمارا ہنستا بستا گھر اجاڑ دیا؟ زارا نے ایسی کیا غلطی کی تھی کہ اسے اتنی بے رحمی سے قتل کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں قتل ہونے والی زارا کے شوہر نے اپنی ملزمہ ماں اور بڑی بہن یاسمین سے کیے۔
انہوں نے بتایاکہ جواب ملا کہ بس پتا نہیں کیا ہوگیا تھا، اچانک ہی سب کچھ ہوگیا، ہم نے تمہارا گھر تباہ کردیا، کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔
مقتولہ کے شوہر قدیرنے بتایا کہ گھر میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا، بیوی اور اس کی ماں کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں تھا، ماں اور بہن کو اس کی بیوی سے اتنی نفرت کیوں ہوئی جو انہوں نے اتنا بڑا قدم اٹھایااس بارے کچھ خبر نہیں، ماں کو پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی، ہر ماہ پیسے بھیجتا تھا، انہیں جب بھی ضرورت ہوتی، انہیں فوراً پیسے بھیج دیتا تھا نہ ماں کو پیسے کی کمی تھی نہ بہن کو۔
سعودی عرب سے اسلام آباد پہنچا تو وہاں پہنچتے ہی پتا چلا ماں اور بہن نے زارا کو قتل کردیا ہے ۔اسلام آباد سے سیدھا نالہ ایک پہنچا جہاں پولیس زارا کی لاش تلاش کر رہی تھی۔ لاش کے تمام حصے ملے،اسپتال منتقل کیا، وہاں میت کے نمونے لیے گیے۔ اسپتال سے میت وصول کرنے کے بعد غسل دیا اور تدفین کی اور پھر سسرال گوجرانوالہ آگیا۔
ملزم نوید جو ماں کا رشتے دار ہے، ماں اور بہن نے اسے اٹلی بھیجنے کا کہہ کر منصوبے میں شامل کیا۔ ماں اور بہن اگر معافی مانگیں تو معاف کردو گے؟ اس سوال پر مقتولہ کے شوہر قدیر نے کہا کہ ابھی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا، میرا خاندان تباہ ہوگیا، میرے گھر والوں نے ایسا عمل کیا ہے کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔
سگی خالہ کے ہاتھوں قتل ہونے والی زارا کے والد شبیر احمد نے بتایا کہ وہ میری اکلوتی لاڈلی بیٹی تھی، بیوی کے انتقال کے بعد میرے دکھ سکھ کی ساتھی تھی، میری تو دنیا ہی اجڑ گئی ہے۔
انہوں نے بتایاکہ میری بیٹی اور میں اس شادی پر راضی نہیں تھے لیکن زارا کے ماموں، میری بیوی اور صغراں اس رشتے کے حق میں تھے، اس طرح بڑوں نے زارا کو سمجھا بجھا کر راضی کر لیا اور میں بھی راضی ہوگیا کہ میری بھی اکلوتی بیٹی ہے، قدیر بھی اکلوتا ہے تو بیٹی خوش رہے گی۔
شبیر احمد جو خود گوجرانوالہ پولیس میں ہیں، نے بتایا کہ چھوٹے موٹے جھگڑے تو ہوتے ہی رہتے تھے، بیٹی ساس اور نندوں خاص کر یاسمین کے رویے سے متعلق اکثر بتاتی بھی تھی لیکن اس نے کبھی اپنے سسرال میں اس بارے میں بات نہیں کرنے دی کہ معاملہ بڑھ نہ جائے اور ہم نے بھی درگزر کیا کہ بیٹی کا گھر بستا رہے لیکن ہمیں ہرگز اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ انجام دیکھنا پڑ سکتا ہے۔
زارا سعودی عرب سے واپس آئی تو اس کی ساس اور نند یاسمین ہی اسے لاہور ائیرپورٹ سے گھر لے کر آئیں۔
ایک ماہ سسرال رہ کر زارا میکے میں ایک ماہ رہی۔ واقعے سے دس روز قبل اسے سسرال چھوڑا تھا۔ زارا کے والد نے بتایا کہ اس واقعے کے پیچھے کے سب سے بڑا ہاتھ زارا کی بڑی نند یاسمین کا ہے، وہی ماں کو اکساتی تھی، ماں بیٹیوں کو اس بات کا دکھ تھا کہ شادی سے پہلے جو بیٹا اور بھائی مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں تھا، اب وہ بیوی کا خیال رکھتا ہے، یہ خلش،حسد اس حد تک بڑھ جائے گا، اس کا قطعاً علم نہیں تھا۔
ان کا کہناتھاکہ زارا نمازی تھی اس نے کئی عمرے بھی کر رکھے تھے، بیٹی کے قاتلوں کو سخت سزا ملے، وہ بس یہی چاہتے ہیں۔
ڈسکہ میں سگی خالہ اور نند کے ہاتھوں زارا کے قتل کا ہولناک واقعہ 10 نومبر کی رات پیش آیا، جب یہ ہولناک وارادات سامنے آئی تو ہر شخص سکتے میں آگیا۔
زارا کو ملزمان نے پہلے منہ پر تکیہ رکھ کر سانس بند کرکے قتل کیا، لاش کے کئی ٹکرے کیے، مکمل شناخت مٹانے کے لیے ملزمان نے سفاکیت کی انتہا کردی، زارا کا سر جسم سے الگ اور اسے اس وقت تک جلایا جب تک چہرے کے مکمل نقوش مٹ نہیں گئے۔
ملزمان نے گھر سے تمام تر ثبوت مٹائے، لاش کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے انہیں واش روم لے جا کر دھویا اور پھر پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈال کر نالے میں بہایا۔ یہی نہیں جس چولہے پر زارا کا سر جلایا گیا، ملزمہ صغراں اگلے روز وہ چولہا ٹھیک کرانے لے جاتے بھی دیکھی گئی۔

Views= (1100)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین