ناموافق قوانین کے باعث بیرونی دواساز ادارے پاکستان چھوڑنے پر مجبور

پاکستان میں دواسازی کے شعبے کو غیر معمولی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ناموافق قوانین اور قواعد و ضوابط کے باعث بیرونی عالمی شہرت یافتہ بیرونی دواساز ادارے ملک سے نکل رہے ہیں۔ اب صرف چار بیرونی کمپنیاں ایسی ہیں جن کی مینوفیکچرنگ فیسلٹیز پاکستان میں کام کر رہی ہیں۔
فارما بیورو کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عائشہ ٹی حق پاکستان میں دواسازی کے شعبے کی ترقی و استحکام کی راہ میں حائل مشکلات کی صراحت کرتے ہوئے کہتی ہیں ”پاکستان میں ریگیولیٹری ماحول (قواعد و ضوابط) بیرونی دواساز اداروں کی ترقی و استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ دی ڈریپ ایکٹ مجریہ 2012، ڈرگز ایکٹ مجریہ 1976 اور ڈرگ پرائسنگ پالیسی مجریہ 2018 میں بہت سی پیچیدگیاں، خامیاں اور تضادات ہیں جو اختیارات، غیر واضح آپریٹنگ پراسیجرز اور اہم دواؤں کی غیر منطقی قیمتوں کے حوالے سے ہیں۔ اِن مسائل نے دواسازی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل کردیا ہے۔“
عائشہ حق نے مزید بتایا کہ پاکستان میں آکر کاروبار شروع کرنے اور جمانے والے ملٹی نیشنل دواساز اداروں کی تعداد 30 سے زائد ہے تاہم چند حالیہ عشروں میں یہ تعداد گھٹ کر صرف چار رہ گئی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں دواسازی کا شعبہ کس نوعیت کی مشکلات سے دوچار ہے۔
عائشہ حق مزید کہتی ہیں ”عالمی شہرت یافتہ غیر پاکستانی دواساز اداروں کے یہاں سے رخصت ہونے کی بنیادی وجوہ میں محصولات کا غیر متوازن نظام، قواعد و ضوابط سے متعلق چیلینج، ملک کا مجموعی معاشی عدم استحکام، قیمتیں متعین کے نظام پر سرکاری کنٹرول اور جعلی دوائیں نمایاں ہیں۔ قیمتیں متعین کرنے کے میکینزم پر سرکاری کنٹرول نے بیرونی دواساز اداروں کے لیے پاکستان میں کام جاری رکھنا انتہائی دشوار کردیا ہے کیونکہ اِس کے نتیجے میں منافع کی گنجائش کم رہ گئی ہے اور بیشتر معاملات میں خسارے کا سامنا ہے۔“
عائشہ حق تصریح کرتے ہوئے کہتی ہیں ”قیمتوں کے تعین سے متعلق موجودہ پالیسی ناپائیدار ہے اور اس کے نتیجے میں بیشتر دواساز اداروں کو کم قیمت والی بہت سی دواؤں کے معاملے میں خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کوئی بھی کاروباری ادارہ خسارے کے ساتھ تو نہیں چلایا جاسکتا۔ اِس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ ادارے اس قابل نہیں رہتے کہ مزید خسارہ برداشت کرسکیں یا پاکستان کی ڈرگ مارکیٹ میں نئی دوائیں متعارف کراسکیں۔“
بہت سے ماہرین دواسازی کے شعبے تیزی سے کم ہوتی ہوئی سرمایہ کاری کو ملک کے لیے درکار زرِمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے حجم کے روپ ہی میں نہیں دیکھتے بلکہ اُن کے خیال میں یہ کیفیت دواسازی کے شعبے میں ’تحقیق و ترقی‘ کے فروغ کی بھی راہ روک رہا ہے جبکہ اس شعبے سے بہت سے ہنرمند وابستہ ہیں اور یہ شعبہ پاکستانی شہریوں کے کریئر کے ارتقا میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ دواساز اداروں کے پاکستان سے رخصت ہونے سے ملک کے بارے میں منفی تاثر قائم ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں دیگر شعبوں میں بھی پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے پنپنے کی راہ بھی مسدود ہوتی چلی جاتی ہے۔

Views= (326)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین