لاہور کے پرائیویٹ گرلز ہاسٹلز میں خواتین خود کو غیرمحفوظ کیوں سجھتی ہیں؟

واش روم سے کیمرہ برآمد ہونے کے مرکزی ملزم ضمانت پر ہیں

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں گذشتہ ہفتے پولیس نے ایک بڑی عمارت کو گھیرے میں لیا۔ یہ لڑکیوں کا ایک پرائیویٹ ہاسٹل تھا۔ پولیس نے اس کی انتظامیہ کے دو افراد کو حراست میں لیتے ہوئے سارا ہاسٹل خالی کروا دیا۔ یہاں پنجاب کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والی 40 سے زائد لڑکیاں رہائش پذیر تھیں جو لاہور میں پڑھائی اور نوکری کی غرض سے آئی تھیں۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک 17 سالہ لڑکی نے یکم جون کو اپنے ہاسٹل کے واش روم میں پہلے سے لگے ایک خفیہ کیمرے کا سراغ لگایا اور اپنے گھر والوں کو اس بات سے آگاہ کیا۔ اس لڑکی کے رشتہ دار فوراً لاہور پہنچے اور پولیس سے رجوع کیا۔
پولیس نے فوری مقدمہ درج کرتے ہوئے اس ہوسٹل کو سیل کر دیا اور پرائیویٹ گرلز ہاسٹل کے مالک اور ان کی اہلیہ سمیت دیگر افراد پر چائلڈ پورنوگرافی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
لاہور میں ایسے سینکڑوں گرلز ہاسٹلز گھر گھر اور گلی گلی میں کھلے ہوئے ہیں جو صوبہ بھر سے آئی لڑکیوں اور خواتین کو رہائش مہیا کرتے ہیں۔ تاہم ابھی تک ان ہاسٹلز کو ریگولیٹ کرنے کا عمل شروع نہیں ہو سکا۔ اور نہ ہی کسی بھی محکمے کے پاس ان ہاسٹلز کا کوئی ڈیٹا موجود ہے۔
گرلز ہاسٹل کیسے کام کرتے ہیں؟
یہ ایک پُرکشش کاروبار ہے جسے زیادہ تر پراپرٹی ڈیلر چلا رہے ہیں۔ یہ مختلف علاقوں میں گھر کرائے پر لیتے ہیں اور بغیر کسی کو بتائے اس کو خواتین کا ہاسٹل بنا دیتے ہیں۔ جو ماہانہ فیس طے کی جاتی ہے اس میں کھانا پینا اور بجلی کا بل شامل ہوتا ہے۔ اس لیے زیادہ تر لڑکیاں اسے ایک آسان چوائس سمجھتی ہیں۔
ہر جگہ پھیلے ان گرلز ہاسٹلز کے باہر نہ تو کوئی بورڈ لگا ہوتا ہے اور نہ کوئی سکیورٹی گارڈ ہوتا ہے۔ باہر سے یہ ایک عام گھر نظر آتا ہے جس میں درجنوں لڑکیاں رہائش پذیر ہوتی ہیں۔ اٹیچڈ واش روم کے ساتھ سنگل بیڈ روم کا ماہانہ کرایہ 30 ہزار جبکہ ایک کمرے میں دو بیڈز کا کرایہ تقریباً 22 ہزار ہوتا ہے۔ اسی طرح سے تین بیڈز اور چار بیڈز تک 15 سے 18 ہزار روپے لیے جاتے ہیں۔
لاہور کے جن علاقوں میں سب سے زیادہ سستے گرلز ہاسٹلز ہیں، ان میں جوہر ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، رائیونڈ، ٹاؤن شپ اور مزنگ شامل ہیں۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں جو نوکری اور تعلیم کے لیے لاہور کا رخ کرتی ہیں، ان کے لیے یہ ’چھپے‘ ہوئے ہوسٹلز ایک عذاب بن جاتے ہیں۔
طیبہ مغل جو گذشتہ کئی سال سے کئی ہوسٹلز میں رہ چکی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان ہاسٹلز کا کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں ہے۔ پانچ سے 10 ہزار روپے سکیورٹی ہوتی ہے جو کبھی واپس نہیں ہوتی، اور صرف آئی ڈی کارڈ کی کاپی سے رہائش مل جاتی ہے۔ کھانا ایسا ہوتا ہے جو کھانے کے قابل نہیں ہوتا، چوری اتنی ہوتی ہے جب شکایت لگاؤ تو وہ سامان باہر رکھ دیتے ہیں۔ صفائی کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ تو سستا ترین کاروبار ہے۔ آپ لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے پر گھر کرائے پر لیں اور اس کو گرلز ہاسٹل بنا کر ماہانہ چار پانچ لاکھ روپے کمائیں۔ معیار سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور اس پر بات کریں تو وہ کہتے ہیں فوری نکلو یہاں سے۔ ایک طرح سے یہ بلیک میلنگ ہے۔‘
’جو لڑکی زیادہ بولے اس کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے تمہیں کون لینے آتا ہے اور کیا کرتی ہو۔ تمہارے گھر والوں کو سب بتا دیں گے۔ میرے ساتھ رہنے والی ایک لڑکی کے ساتھ ایسا ہوا تھا، اور وہ فوری طور پر وہ ہاسٹل چھوڑ گئی تھی۔‘
تو کیا کہ یہ ایک محفوظ رہائش ہے؟
اس سوال کے جواب میں ایک طالبہ ام ایمن کا کہنا تھا کہ ’نہیں بالکل بھی نہیں، چلیں ہوسٹل مالکان کی حد تک تو یہ ہے کہ ان کو صرف پیسے کا لالچ ہوتا ہے۔ زیادہ پیسے لے کر صفر سروسز دینا ان کا کاروبار ہے۔ لیکن آپ کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ آپ کے ساتھ روم میں دوسری لڑکی کون ہے۔
ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ روم میٹس نے لڑکیوں کی ویڈیوز بنائیں۔ آپ کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتے ہیں اور چوریاں الگ سے۔ بس مجبوری ہے کہ اور کوئی آپشن نہیں ہے محفوظ تو بالکل نہیں ہیں۔‘
لاہور میں تیزی سے پھیلتے ہوئے گرلز ہاسٹلز کے اس کاروبار پر حکومت بھی کچھ سال قبل چوکنا ہوئی اور خود سے گرلز ہاسٹلز بنانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ہوسٹلز بنانے والے ادارے ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی سیکریٹری سمیرا صمد نے بتایا ’ہمارا ادارہ بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ ہم ورکنگ خواتین کو جو دوسرے شہروں سے آتی ہیں اور ان کر رہائش کے مسائل ہیں، ان کو سستی اور معیاری رہائش فراہم کریں۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں ’خفیہ طور‘ پر چلنے والے پرائییٹ گرلز ہاسٹلز کا ریکارڈ کسی ادارے کے پاس نہیں ہے۔ اس حوالے سے سمیرا احمد کا کہنا تھا کہ ’ویسے تو ہمارے پاس مینڈیٹ نہیں ہے کہ ریکارڈ مرتب کریں، لیکن جو شہر میں بڑے گرلز ہاسٹلز ہیں ان کی تعداد 125 کے قریب ہے جن کا ریکارڈ سرکار کے پاس ہے۔ جہاں تقریباً نو ہزار لڑکیاں رہ رہی ہیں۔‘
لیکن آپ اگر لاہور کے رہائشی ہیں تو گوگل پر سرچ کرنے پر 100 کے قریب گرلز ہاسٹل آپ کو 20 کلومیٹر کے دائرے میں مل جائیں گے۔
حکومت نے خود سے ہاسٹلز بنانے کے ساتھ ساتھ گذشتہ برس ’پنجاب ویمن ہاسٹلز اتھارٹی ایکٹ‘ کے نام سے ایک باضابطہ قانون بھی اسمبلی سے پاس کروایا ہے۔ تاہم صوبے میں جاری سیاسی رسہ کشی کے باعث اس اتھارٹی کا قیام ابھی تک عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اتھارٹی کا چئیرپرسن مقرر کیا جائے جو صوبائی کابینہ نے تین سال کے لیے کرنا ہے۔ اس کے بعد اس اتھارٹی کے پاس گرلز ہاسٹلز بنانے کا لائسنس جاری کرنے کا اختیار ہے اور کسی بھی لائسنسڈ ہوسٹل کے اندر جا کر اس کے معیار کی انسپیکشن بھی کی جائے گی۔ تاہم اس قانون کے بننے کے باوجود ڈیڑھ سال سے یہ اتھارٹی فعال نہیں ہو سکی۔
بظاہر اس قانون میں وہ تمام باتیں شامل کی گئی ہیں جن کی شکایت پرائیوٹ گرلز ہاسٹلز کی لڑکیاں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
دوسری طرف جوہر ٹاؤن کے گرلز ہاسٹل میں مبینہ طور پر واش روم سے کیمرہ برآمد ہونے کے مرکزی ملزمان عبوری ضمانت پر ہیں۔ اور پولیس اس حوالے سے ان سے مزید تفتیش کر رہی ہے۔

Views= (565)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین