’نیشنل سکیورٹی کو خطرہ‘، نگراں وزیراعظم سمیت وزرا کا ڈیٹا آن لائن دستیاب
Nov 22 2023 | ویب ڈیسک
انٹرنیٹ پر ایسی کئی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں پاکستانی شہریوں کا حساس اور ذاتی نوعیت کا ڈیٹا دستیاب ہے۔
اس ڈیٹا تک رسائی اس قدر آسان ہے کہ محض ایک سرچ کے ذریعے آپ کسی بھی نمبر کی تفصیلات حاصل کر سکتے ہیں۔ ان میں آپ کسی کا بھی شناختی کارڈ نمبر، اس کے زیرِاستعمال دیگر سمز اور بعض اوقات حساس نوعیت کی ذاتی معلومات تک رسائی محض ایک کلک کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔
اِن پر ویب سائٹ سے متعلق معلومات تو درج نہیں ہوتی لیکن شہریوں کے حوالے سے ان ویب سائٹس پر مکمل ڈیٹا بیس موجود ہے جس کا غلط استعمال بھی کیا جا سکتا ہے، اور ماہرین کے مطابق یہ قومی سطح پر خطرے کا باعث بھی ہے۔
گذشتہ پانچ برسوں میں کئی بار نادرا کے ڈیٹا بیس سے چوری کی گئی جس کا ذکر پچھلے دور حکومت میں پارلیمنٹ میں بھی ہوتا رہا۔
میڈیا میٹر فار ڈیموکریسی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور ڈیجیٹل رائٹس مانیٹر کے ایڈیٹر اسد بیگ سم ڈیٹا اور پرائیویسی سے متعلقہ مسائل پر کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق پوری دنیا میں شہریوں کے حوالے سے اس طرح کے ڈیٹا کو ’کریٹیکل انفراسٹرکچر‘ کہا جاتا ہے اور اس کا یوں انٹرنیٹ پر دستیاب ہونا انتہائی پریشان کن ہے۔
’کسی بھی طریقے سے نادرا کے کریٹیکل انفراسٹرکچر سے ڈیٹا لیک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نیشنل سکیورٹی کو بڑا خطرہ ہے۔ اس میں دیکھنا یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے اور اس کو ٹھیک کیسے کیا جا سکتا ہے۔‘
انٹرنیٹ پر موجود ان ویب سائٹس کی ملکیت کی کوئی واضح تفصیلات دستیاب نہیں ہیں لیکن پھر بھی یہ پاکستان میں موبائل صارفین اور قومی شناختی کارڈ ہولڈرز کے نیشنل ڈیٹا بیس کے لیے ’سرچ‘ کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان ویب سائٹس کے پاس شہریوں کا فعال ڈیٹا بیس موجود ہے جو ان کے موجودہ اور مستقل پتے، تاریخ پیدائش اور مزید حساس معلومات تک رسائی کو ممکن بنا رہا ہے۔
اسد بیگ کے مطابق نادرا نے اپنے ڈیٹا بیس کو بہت حد تک محفوظ کر لیا ہے۔
’جتنا میں نے سنا ہے اس کے مطابق نادرا کے سسٹم میں کافی بہتری آئی ہے لیکن یہ سب ڈیٹا تھرڈ پارٹی ایپس کے ذریعے دستیاب ہوتا ہے، جس کی تحقیقات وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کو ان ویب سائٹس تک رسائی حاصل ہے۔‘
گذشتہ دنوں سوشل میڈیا ایپ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک صارف نے جب اس مسئلے کی نشاندہی کی تو نگراں وفاقی وزیر برائے آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن ڈاکٹر عمر سیف نے اس کا نوٹس لیا اور متعلقہ ویب سائٹ کو بند کرنے کی یقین دہانی کرائی، جس کے بعد ویب سائٹ بند کر دی گئی۔ لیکن وی پی این کے ذریعے اس ویب سائٹ تک رسائی پھر بھی ممکن تھی۔
ڈاکٹر عمر سیف نے بتایا کہ ’وہ اس حوالے سے اقدامات کر رہے ہیں۔ اگلے چار دنوں میں ہم اس حوالے سے مؤثر حکمت عملی بنا لیں گے۔ ہم نے ٹاسک بھی دے دیے ہیں اور ایک کمیٹی بھی جلد قائم کی جائے گی۔‘
تاہم اسد بیگ کے مطابق ’حکومت زیادہ سے زیادہ ویب سائٹس بند کر دیتی ہے لیکن وہ ڈیٹا بیس تب بھی موجود ہوتا ہے۔ آنکھیں بند کر دینے سے خطرات غائب نہیں ہو جاتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی سطح پر اس حوالے سے دلچسپی دکھائی جاتی ہے لیکن لوگوں کو اس کے منفی اثرات بارے درست علم نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ صرف آئی ٹی منسٹری کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ تمام قانون ساز اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس پر کام کیا جائے۔ اب تو یہ بہانہ بھی ختم ہو گیا ہے کہ ہمیں اس بارے معلوم نہیں کیونکہ جب آپ ایک اعلٰی عہدے پر ہیں تو آپ کو ضرور معلوم ہونا چاہیے۔‘
’میں دیکھ رہا ہوں کہ ڈاکٹر عمر سیف جب سے آئے ہیں تو وہ اس حوالے سے بہت کام کر رہے ہیں لیکن اُن کے پاس بھی کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ سب کو ڈیجیٹل پالیسی کے بارے علم ہونا ضروری ہے۔‘
یہ بھی معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر ویب سائٹس پر 2021 تک کا مکمل ڈیٹا بیس موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ 2021 تک خریدے گئے سم کارڈ نمبرز درج کرنے پر تمام تفصیلات بآسانی حاصل کی جا سکتی ہیں۔
تاہم کئی ویب سائٹس ایسی بھی ہیں جو ’پریمیئم‘ خریدنے پر موجودہ ڈیٹا بھی فراہم کر رہی ہیں، یعنی ان کے ہاں ’ریئل ٹائم‘ ڈیٹا بھی دستیاب ہے۔
اسد بیگ کا کہنا تھا کہ ’ہم پہلے بھی اس پر کام کر چکے ہیں اور ہم نے بھی ایک تجربے کے دوران کئی ہائی پروفائل لوگوں کا ڈیٹا بآسانی حاصل کیا جس کے بعد ہم نے اس حوالے سے لکھا تاکہ اس کا ازالہ کیا جا سکے۔‘
ماضی قریب میں اسی طرح کے ڈیٹا کی خلاف ورزیوں اور صارفین کے ڈیٹا کو آن لائن فروخت کیے جانے کی متعدد رپورٹس سامنے آ چکی ہیں۔ اس طرح کے بے شمار ویب سائٹس گوگل پر دستیاب ہیں جبکہ پلے سٹور پر ایسے کئی ایپس بھی موجود ہیں۔ ان ایپس اور ویب سائٹس پر اشتہارات بھی چلائے جاتے ہیں اور لوگوں کا ذاتی ڈیٹا بھی فراہم کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اس وقت ڈیٹا پرائیویسی اور پروٹیکشن سے متعلق قانونی سازی کا فقدان ہے۔
ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے اسد بیگ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں پرائیویسی کے قوانین موجود نہیں ہیں، اس لیے جو کمپنیاں یہ ڈیٹا لیک کرتی ہیں اُن کو آپ جوابدہ نہیں ٹھہرا سکتے۔ گذشتہ حکومت نے جب اس حوالے سے قانون سازی کی تھی تو اُس میں بہت سارے مسائل تھے، لیکن اب اس کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھنا از حد ضروری ہو گیا ہے۔‘
Views= (395)
Join on Whatsapp 1 2