پنجاب کے نصاب میں بچوں کو ’گُڈ ٹچ بیڈ ٹچ‘ سے متعلق آگاہی شامل کرنے کا فیصلہ

جنرل مشرف کے دور میں اس طرح کی ایک کوشش کی گئی تھی

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے محکمہ داخلہ نے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کی روک تھام کے لیے "گُڈ ٹَچ بیڈ ٹچ‘ بارے میں آگاہی پر مبنی مواد بچوں کے نصاب میں شامل کرنے کے لیے محکمہ سکول ایجوکیشن کو خط لکھا ہے۔
اس خط کے مندرجات کے مطابق ’درست تعلیم اور آگاہی دیے جانے کے بعد بچے نامناسب رویے کو پہچان کر رپورٹ کر سکتے ہیں، اس لیے بچوں کو سکھایا جائے کہ جنسی استحصال کی کوشش کرنے والوں سے ڈرنا نہیں بلکہ انہیں بے نقاب کرنا ہے۔‘
اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ محکمہ داخلہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے ذریعے بھی صوبہ بھر میں ’گُڈ ٹچ بیڈ ٹچ‘ کے بارے میں آگاہی مہم تیار کر رہا ہے جسے آئندہ کچھ عرصے میں باضابطہ طریقے سے چلایا جائے گا۔
وزارت داخلہ کے خط میں اس نئی پالیسی سے متعلق مزید لکھا گیا ہے کہ ’معاملے کی حساسیت کے پیش نظر آنے والی نسلوں کو محفوظ بنانے کے لیے فوری حکمت عملی مرتب کی جائے۔ بچوں کو ذاتی حفاظت کے بارے میں تعلیم دینا وقت کی ضرورت ہے۔‘
مراسلے میں سفارش کی گئی ہے کہ ’بچوں کو احسن انداز میں مناسب اور نامناسب جسمانی رویے کے بارے میں بتایا جائے اور ابتدائی کلاسز کے سلیبس میں گُڈ ٹچ بیڈ ٹچ کے بارے میں آگاہی کو شامل کیا جائے۔ درست تعلیم اور آگاہی کے بعد بچے نامناسب رویے کو پہچان کر رپورٹ کر سکتے ہیں۔ اس لیے والدین اور اساتذہ بچوں کو بتائیں کہ گھر اور باہر نامناسب رویے کو کیسے رپورٹ کیا جائے۔‘
ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کے مطابق جنسی استحصال کا شکار بچے زندگی بھر ٹراما میں رہ سکتے ہیں۔ بچوں کو محفوظ بنانا اور استحصال کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں لانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کو سکھایا جائے کہ جنسی استحصال کی کوشش کرنے والوں سے ڈرنا نہیں بلکہ انہیں بے نقاب کرنا ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب کے سفارشی مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ’بچوں کے نصاب میں گُڈ ٹچ بیڈ ٹچ سے متعلق ماڈیول شامل کرنے کے لیے ماہرین سے مدد لی جائے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق انتہائی پروفیشنل طریقے سے اس کورس کو ترتیب دیا جائے اور بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھا جائے۔‘
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں اس حساس معاملے کو شامل کیا جا رہا ہے۔ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں اور شخصیات نے حکومت کے اس اقدام کی تحسین کی ہے۔
بچوں میں اس حوالے سے شعور و آگاہی اور حقوق کے لیے کام کرنے والی ایکٹیوسٹ ماہین علی کہتی ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ ایک انتہائی درست فیصلہ ہے۔ نصاب کی تیاری میں والدین کی آگاہی کو بھی شامل کیا جانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ چھوٹی عمر کے بچے اپنے والدین خاص طور پر اپنی ماؤں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اس تعلیم میں والدین اور بچوں کے درمیان سماجی طور پر پائے جانے فاصلوں کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ شاید وزیراعلیٰ کے خاتون ہونے کی وجہ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھا گیا ہے۔ اس سے قبل جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس طرح کی ایک کوشش کی گئی تھی لیکن اس کو شروع کرنے کا انداز ایسا تھا کہ وہ معاملہ متنازع ہو گیا۔‘
ماہین علی کا کہنا تھا کہ ’حفاظتی تعلیم دوسری تعلیم سے زیادہ ضروری ہے۔ کیونکہ پہلے آٹھ سال میں بچے کی نشونما اس بات کا تعین کرتی ہے کہ اس کی باقی ماندہ زندگی کیسے گزرے گی۔ اگر ابتدائی زندگی میں بچہ کسی تکلیف کا شکار ہو جائے اور اس کو سمجھ ہی نہ پائے تو اس کےاثرات ساری زندگی اس کے لاشعور پر رہتے ہیں۔

Views= (24)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین