’عدلیہ کی آزادی کیلئے دھچکا‘، آئی سی جے کی 26ویں آئینی ترمیم پر سخت تنقید

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ (آئی سی جے) نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد 26ویں آئینی ترمیم کے قانون کو عدلیہ کی آزادی کے لیے دھچکا قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد وزیراعظم کی ارسال کردہ سمری پر صدر مملکت کے دستخط کے نتیجے میں 26ویں آئینی ترمیمی بل قانون بن گیا ہے۔
بل کی منظوری پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آج جاری کردہ ایک بیان میں آئی سی جے نے کہا کہ یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک دھچکا ہے۔
آئی سی جے کے سیکریٹری جنرل سینٹیاگو کینٹن نے کہا کہ تبدیلیوں سے عدالتوں میں تعیناتیوں اور عدلیہ کے انتظامی معاملات پر سیاسی اثر و رسوخ میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ تبدیلیاں ریاست کے دیگر اداروں کی طرف سے زیادتیوں کے خلاف عدلیہ کی آزادانہ اور مؤثر طور پر جانچ پڑتال اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے کی صلاحیت کو ختم کرتی ہیں۔
آئی سی جے نے اس عجلت پر بھی تنقید کی جس کے ساتھ یہ بل قانون بنایا گیا اور کہا کہ مسودے میں ترامیم کو خفیہ رکھا گیا اور ان ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور منظور کرنے سے پہلے ان پر عوامی سطح پر مشاورت نہیں کی گئی۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ تشویشناک ہے کہ اتنی اہمیت کی حامل اور مفاد عامہ سے متعلق آئینی ترمیم کو اتنے خفیہ طریقے سے اور 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں منظور کیا گیا۔
یاد رہے اس نئے قانون کے نافذ العمل ہونے کے ساتھ ہی چیف جسٹس کے تقرر کا طریقہ کار بھی تبدیل ہو گیا ہے جہاں اس سے قبل چیف جسٹس کے بعد عدالت عظمیٰ سب سے سینئر ترین جج کو اس عہدے پر تعینات کیا جاتا تھا، البتہ اب 26ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں بننے والے قانون سے صورتحال بدل گئی ہے۔
نئے قانون کی روشنی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے حکومت اور اپوزیشن کے اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں کے ناموں پر مشاورت کے بعد ایک حتمی نام چیف جسٹس کے عہدے کے لیے وزیراعظم کو بھیجے گی اور وزیراعظم اس نام کو منظوری کے لیے صدر کے پاس بھیجیں گے۔

Views= (388)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین