ایرانی صدر کی ہلاکت میں کون ملوث؟ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جاری

ایران نے مرحوم صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں کسی بھی قسم کئی مجرمانہ سرگرمی کو مسترد کردیا ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق، ایرانی فوجی تفتیش کاروں کو اب تک ہیلی کاپٹر حادثے میں مجرمانہ سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی ”ارنا“ کے مطابق، مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کی جانب سے حادثے کے بارے میں ایک ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں ’ایک بلند علاقے سے ٹکرانے کے بعد آگ لگ گئی‘، ہیلی کاپٹر کے ملبے پر گولیوں کے سوراخ بھی نہیں ملے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اتوار کو حادثے سے قبل ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر ’پہلے سے طے شدہ راستے پر پرواز کر رہا تھا اور اس نے پرواز کا مقررہ راستہ نہیں چھوڑا تھا‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’واچ ٹاور اور فلائٹ عملے کے درمیان بات چیت کے دوران کوئی مشکوک مواد نہیں دیکھا گیا‘۔
جمعرات کی رات سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے ایک بیان کے مطابق، صدر کے دستے اور ساتھ والے دو ہیلی کاپٹروں کے درمیان حتمی مواصلت حادثے سے تقریباً ڈیڑھ منٹ پہلے ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق ہیلی کاپٹر کا ملبہ پیر کی صبح ایرانی ڈرونز کے ذریعے ایران کے پہاڑی شمال مغرب میں پایا گیا تھا، جس میں ’علاقے کی پیچیدگی، دھند اور کم درجہ حرارت‘ تلاش اور امدادی ٹیموں کے کام میں رکاوٹ بنے۔
ایرانی افواج کا کہنا ہے کہ تحقیقات اور مزید تفصیلات کے اجرا کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
رپورٹ کے مطابق گر کر تباہ ہونے والا ہیلی کاپٹر انتہائی پرانا تھا جو ابراہیم رئیسی اور اس کے ساتھیوں کو اتوار کو آذربائیجان کے ساتھ ملحق ایرانی سرحد کے دورے سے واپس گھر لے جا رہا تھا۔
صدر نے اس سے قبل آذربائیجان کے صدر الہام علییف کے ساتھ ڈیم کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
ایران پر 1979 کے انقلاب سے متعلق غیر ملکی پابندیاں، اور اس کے بعد اس کے جوہری پروگرام اور اس کی نام نہاد ”محور مزاحمت“ کی حمایت پر لگائی گئی غیر ملکی پابندیوں نے ملک کے لیے ہوائی جہاز کے پرزے یا نئے طیارے حاصل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔

Views= (951)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین