کیا عمران خان کی رہائی کا سفر شروع ہو گیا؟

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے حوالے سے ہفتہ کے روز دو بڑے دعوے سامنے آئے۔ ایک جانب پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر اور بعض صحافیوں نے رواں ماہ یعنی اپریل میں ان کی رہائی کا امکان ظاہر کیا تو دوسری جانب عمران خان کے تازہ ترین بیان کے بعد این آر او نہ دیئے جانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
عمران خان سے ہفتہ کی روز پارٹی رہنماؤں نے ملاقات کی تھی جبکہ پی ٹی آئی کے بانی اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو بھی کی تھی۔
اس گفتگو کے حوالے سے ابتدائی اطلاعات سے یہ تاثر پیدا ہوا عمران خان مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان سے منسوب جملوں میں کہا گیا کہ اگر میں حکومت گرانے کے باوجود جنرل باجوہ سے دو مرتبہ ملاقات کر سکتا ہوں تو کسی سے بھی مل سکتا ہوں۔
جب یہ ٹکر ٹی وی سکرینوں پہ چل رہے تھے تو اسی وقت بیرسٹر گوہر کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ عمران خان اپریل میں رہا ہو جائیں گے۔
اس کے کچھ دیر بعد نجی ٹی وی کے شو میں صحافی اعزاز سید نے بھی اپریل یا مئی میں عمران خان کی رہائی کا امکان ظاہر کیا۔ تاہم اعزاز سید کا یہ بھی کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پہلی مرتبہ گرفتاری کے بعد رہا کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے جب ریڈ لائن کراس کی تو پھر دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ اعزاز سید نے بھٹو کی پھانسی کا حوالہ بھی دیا۔
اسی شو میں سینیئر صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ عمران خان کی واپسی کا سفر شروع ہو گیا ہے۔
لیکن ابھی عمران خان کی رہائی کے حوالے سے یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ ان کی صحافیوں سے گفتگو کی مزید تفصیل سامنے آئی جس میں پی ٹی آئی کے بانی نے مبینہ دور پر آرمی چیف کا نام لے کر ان پر سخت تنقید کی۔
ادھر اسلام آباد سے خبر آئی کہ نو مئی کے واقعات پر گرفتار ملزمان کی رہائی شروع ہو گئی ہے اور جی ایچ کیو حملے کے ایک ملزم کو فوجی عدالت سے رہا کر دیا گیا ہے۔
تاہم ان تمام خبروں کے آخر میں رات کو 10 بجے صحافی کامران شاہد نے کہا کہ متعلقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ نہ تو پی ٹی ائی کی قیادت کو کوئی این آر او دیا جا رہا ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کو چھوٹی موٹی باتوں پر کوئی تشویش ہے۔
ان متعلقہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کامران شاہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ نو مئی کے مقدمات کی عدالتی کاروائی مکمل ہوگی اور اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ نو مئی پر سمجھوتہ قومی سلامتی پر سمجھوتے کے مترادف ہوگا کیونکہ یہ کسی ایک ادارے کا معاملہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا معاملہ ہے۔
بعد میں کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار مارخور نامی ایک ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھی کیا گیا۔
بی بی سی اردو سے گفتگو کرتے ہوئےسیاسی تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا تھا ’بانی پی ٹی آئی کی جانب سے گزشتہ روز سامنے آنے والا وہ بیان کے جس میں انھوں نے آرمی چیف کا نام لے کر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے کے بعد یہ معاملہ بہت پیچیدہ ہو گیا ہے کہ ایک جانب تو فوج کے ساتھ مفاہمت کی خبریں سامنے آرہی ہیں اور دوسری جانب عمران خان کا آرمی چیف پر تنقید کرنا معاملہ سمجھ سے باہر ہے۔‘
لیکن سوشل میڈیا پر مسلم لیگ نون کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عمران خان ماضی میں بھی ایسا کرتے رہے ہیں، اقتدار کھونے کے بعد جب وہ جنرل باجوہ سے ملاقات کر رہے تھے تو ساتھ ہی ان پر تنقید بھی کر رہے تھے۔
عمران خان کی رہائی کے حوالے سے ان دعوؤں سے کچھ دن پہلے پشاور کے کور کمانڈر ہاؤس میں خیبر پختون خواہ کابینہ کے اراکین نے ایک دعوت افطار میں شرکت کی جس پر اے این پی کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ کابینہ کا اجلاس اور کمانڈر ہاؤس میں ہوا ہے۔ تاہم خیبر پختون خوا حکومت نے اس کی وضاحت کر دی۔
اس افطار کے سبب بھی پی ٹی آئی سے معاملات طے ہونے کی خبریں پھیلی تھیں۔

Views= (598)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین