’جب امید سے تھی تو میں نے ایک بلّی کھائی تھی، یہ اسی کا نتیجہ ہے‘

دورانِ حمل بلّی کھانے والی ایک خاتون کا ماننا ہے کہ ان کے بیٹا اسی وجہ سے اس انتہائی نایاب طبی حالت کا شکار ہوا ہے۔
فلپائن کے علاقے اپایاو سے تعلق رکھنے والی ایک ماں الما گیمونگن کو خدشہ ہے کہ ان کے بیٹے کا ”ویئر وولف سنڈروم“ جو کہ ایک ارب لوگوں میں سے کسی ایک میں پایا جاتا ہے، اس وجہ سے ہے کیونکہ اس نے دورانِ حمل بلی کا گوشت کھایا تھا۔
الما کا دو سالہ بیٹا جیرن سر پر مکمل بالوں، کالے دھبوں، چہرے، گردن کی پشت اور بازوؤں پر بالوں کے گچھوں کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔
جیرن کی توہم پرست ماں کا خیال ہے کہ بیٹے کی حالت اس عذاب کا نتیجہ ہے جو اس نے اپنے اوپر مسلط کیا اور حمل کے دوران ایک جنگلی بلی کو کھایا تھا۔
الما کو جنگلی بلی کا گوشت کھانے کا بے تحاشہ شوق تھا جو ان کے دور دراز پہاڑی علاقے میں پائی جانے والی ایک علاقائی اور غیر معمولی ڈش تھی، اس لیے انہوں نے گاؤں کے دوستوں سے ایک کالی جنگلی بلی حاصل کی اور اسے مصالحہ لگا کر بھونا اور کھاگئی۔
جب جیرن کی پیدائش ہوئی تو انہیں اپنے کھانے پر افسوس ہوا، ان کے گاؤں والوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ ان کی حالت ایک لعنت کی وجہ سے ہے۔
تاہم، ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ چھوٹا بچہ ایک نایاب طبی حالت میں ہے جسے ہائپرٹرائیکوسس کہتے ہیں، جس کے قرون وسطی کے بعد سے دنیا بھر میں صرف 50 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
الما کا کہنا ہے کہ ’میں اس کے لیے بہت فکر مند ہوتی ہوں جب اس کے اسکول جانے کا وقت ہوتا ہے۔ اسے مختلف ہونے کی وجہ سے تنگ کیا جا سکتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ میری خواہش کی وجہ سے ایسا پیدا ہوا تھا۔ میں نے خود کو مجرم محسوس کیا، لیکن پھر حال ہی میں ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ اس کا بلی کھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ جیرن ایک خوش مزاج اور زندہ دل لڑکا ہے، لیکن اسے گرم موسم کی وجہ سے خارش کی شکایت ہے۔
الما نے کہا، ’میں اسے گرم ہونے پر غسل دیتی ہوں، ہم نے بال کاٹنے کی کوشش بھی کی، لیکن یہ اور بھی لمبے اور گھنے ہونے لگے، اس لیے ہم نے ایسا کرنا چھوڑ دیا۔‘
ماہر امراض جلد نے تصدیق کی کہ جیرن کی حالت انتہائی نایاب ہائپرٹرائیکوسس ہے، جسے ”ویئر وولف سنڈروم“ بھی کہا جاتا ہے جو اندازے کے مطابق ’ہر ایک ارب افراد میں سے ایک‘ کو متاثر کرتا ہے۔
ڈاکٹر ریولینڈا سوریانو پیریز، جنہوں نے جیرن کو چیک کیا، ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ یہ ایک موروثی حالت ہے، لیکن یہ بہت کم ہے۔ صرف ایک ارب میں سے ایک کو یہ ہو سکتا ہے‘۔
ڈاکٹر نے مزید کہا کہ ہائپرٹرائیکوسس کا کوئی علاج نہیں ہے، تاہم لیزر سے بالوں کو ہٹانے جیسے علاج سے اس حالت میں مدد مل سکتی ہے۔

Views= (476)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین