انڈیا کے شمسی مشن کی سیلفی، زمین اور چاند کی تصاویر بھیج دیں

انڈیا کے شمسی خلائی مشن آدتیہ ایل ون نے آج ایک سیلفی کے ساتھ خلا سے بنائی گئی زمین اور چاند کی تصاویر بھیجی ہیں۔
انڈین نیوز چینل ’این ڈی ٹی وی‘ کے مطابق شمسی مشن آدتیہ ایل ون اپنی منزل لیگرینجیئن پوائنٹ (ایل ون) کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ مقام زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔
لیگرینج پوائنٹ زمین اور سورج کے درمیان موجود وہ جگہ ہے جہاں سے سورج کو گرہن یا کسی بھی قسم کی رُکاوٹ کے بغیر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ تازہ تصاویر انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن(آئی ایس آر او) نے ٹویٹر پر پوسٹ کی ہیں اور ان کے ساتھ ایک سیلفی بھی ہے جو آدتیہ ایل ون نے بنائی ہے۔
انڈیا کی نیشنل سپیس ایجنسی کے بینگلور میں واقع پیڈکوارٹر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’آدتیہ ایل ون سورج اور زمین کے درمیان پوائنٹ ون کی جانب جا رہا ہے اور سیلفی کے ساتھ ساتھ زمین اور چاند کی تصاویر بھی بنا رہا ہے۔‘
تصویر میں وزیبل ایمشن لائن کورونو گراف(وی ای ایل سی) اور سولر الڑا وائیلٹ امیجر(ایس یو آئی ٹی) جیسے آلات دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تصویر چار ستمبر 2023 کی ہے۔

اس مشن نے اپنی مہم کا آغاز دو ستمبر کو آندرا پردیش کے علاقے سری ہری کوٹا سے کیا تھا۔
یہ خلائی جہاز اس قبل زمین کے مدار میں دو چکر لگا چکا ہے اور اب یہ مدار تبدیل کر کے لیگرینجیئن پوائنٹ ایل ون کی جانب جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ 125 دن میں اپنی منزل پر پہنچ جائے گا۔
انڈیا کے شمسی مشن کے بڑے مقاصد میں سورج سے نکلنے والی توانائی اور درجہ حرارت کو سمجھنا، سورج کے کورونا ( سورج سے چند ہزار کلومیٹر اوپر کی بیرونی تہہ)، شمسی ہوا، شمسی ماحول وغیرہ کا مطالعہ کرنا ہے۔
آدتیہ ایل ون شمسی ہواؤں کے بارے میں پیشگی انتباہ بھی دے سکتا ہے جو 600 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ سیٹلائٹ ان ہواؤں کی پیمائش کر سکتا ہے اور زمین تک پہنچنے سے پہلے انتباہ جاری کر سکتا ہے۔ آئی ایس آر او کے چیئرمین این سومناتھ نے کہا ہے کہ انڈیا کے دیگر خلائی مشن بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے جن میں ہیومن سپیس فلائٹ پروگرام بھی شامل ہے۔
اس پروگرام کے تحت توقع کی جا رہی ہے کہ 2025 میں انڈیا خلا نوردوں کو پہلی بار مدار میں بھیجے گا۔
انڈیا اگر اپنے اس مشن کو بھیجنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ سورج کی جانب سیٹلائٹ بھیجنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا۔
انڈیا سے قبل امریکہ، روس اور یورپی خلائی ایجنسی اس قسم کی تحقیق کے لیے اپنے مشن بھیج چکے ہیں۔

Views= (332)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین