’مداخلت برداشت نہیں‘، چیف جسٹس کا خط پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ

پاکستان کی سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے تجاویز طلب کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ ایگزیکٹو کی طرف سے عدالتی امور میں مداخلت فوری طورپر بند کی جائے۔ کوئی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان شامل تھے۔
کیس کی سماعت کے دوران فل کورٹ اجلاس کی پریس ریلیز، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط، جسٹس تصدق جیلانی کے انکار پر مبنی خط اور دیگر دستاویزات باری باری پڑھ کر اس حوالے سے کارروائی آگے بڑھائی جاتی رہی۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اس کے جواب میں ادارہ جاتی رد عمل انتہائی کم وقت میں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ چار سال سے فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی تھی لیکن ہم نے اس معاملے پر مسلسل دو دن فل کورٹ میٹنگ کی۔
چیف جسٹس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ فل کورٹ میٹنگ میں کیا گیا۔ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات ایک انتظامی میٹنگ تھی جس میں ایک مسئلے کو حل کرنے کے لیے وزیراعظم اور حکومت کے ساتھ معاملہ اٹھایا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملاقات سے پہلے اور ملاقات کے بعد دونوں دفعہ فل کوٹ اجلاس کو اعتماد میں لیا گیا اور باضابطہ طور پر انہیں اس ملاقات کی تفصیلات سے اگاہ کیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ حامد خان صاحب آپ سینیئر وکیل ہیں، اب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی طے کرتی ہے، کمیٹی نہ عدالت کا اختیار استعمال کر سکتی ہے نہ عدالت کمیٹی کے اختیارات استعمال کر سکتی ہے۔ ’ایک آئینی درخواست جب دائر ہوتی ہے تو اخباروں میں چھپ جاتی ہے، کیا یہ بھی ایک طرح سے پریشر ڈالنے کے مترادف ہے، میں تو کوئی دباؤ نہیں لیتا اور ہمیں اپنے فیصلوں میں دباؤ نہیں لینا چاہیے، عجیب بات ہے کہ وکلا مطالبہ کرتے ہیں کہ ازخود نوٹس لیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اگر کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو پھر وہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بن جائے، ہم کسی کا دباؤ برداشت نہیں کریں گے۔
’ہم نے وزیراعظم سے ملاقات انتظامی طور پر کی جس میں اٹارنی جنرل اور وزیر قانون بھی شریک تھے، ملاقات سپریم کورٹ کے احاطے میں ہوئی، یہ ملاقات چیمبر یا گھر میں نہیں ہوئی۔ ہماری سپیڈ دیکھیں، ہم نے 24 گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں کی، اگلے ہی دن پھر وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کے تحفظات پر وزیراعظم نے مکمل یقین دہانی کرائی تھی۔
’وفاقی حکومت نے کبھی ون مین کمیشن بنانے کا نہیں کہا، تجویز یہ آئی کہ کمیشن کا غیر جانبدار سربراہ ہو، تاثر دیا گیا ایگزیکٹو برانچ انکوائری کر رہی ہے، جنھوں نے باتیں کیں انھوں نے انکوائری ایکٹ 2017 پڑھا ہی نہیں، کمیشن کے پاس توہین عدالت کا اختیار بھی ہے۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ بتائیں نام کس نے تجویز کیے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دو نام آپ نے تجویز کیے تھے، آپ کی طرف سے ناصر الملک اور تصدق جیلانی کے نام تجویز کیے گئے۔ کمیشن کو سول اور فوجداری اختیارات حاصل ہوتے، کابینہ میٹنگ کے بعد تصدق جیلانی صاحب کا نام فائنل ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے ایسے نام تجویز کیے جن پر کم سے کم انگلی اٹھائی جاسکے۔ ’سوشل میڈیا پر ان کے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں، مجھے بڑی شرمندگی ہوئی، کسی مہذب معاشرے میں ایسی باتیں ہوتی ہیں، سمجھ نہیں آ رہا ہم کس طرف جا رہے ہیں۔‘
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو اپنی باڈیز کو لکھ سکتے تھے، تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں، وہ تو جواب نہیں دیں گے، انہوں نے انکار کر دیا، ایسے ذاتی حملے ہوئے اور ایسا ماحول بنایا گیا تو کون شریف آدمی ایسی قومی سروس کرے گا؟
’سوشل میڈیا سے عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس کے بارے میں شروع کر دی گئیں، مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کے لیے نامزد کیا تھا اس پر حملے شروع ہو گئے۔‘
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے باقی ججز سے ہٹ کر موقف اپنایا اور اٹارنی جنرل پر قدرے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب کوپتا ہے کیا ہو رہا ہے مگر سب تاثر دے رہے ہیں کچھ نہیں ہو رہا۔
’اٹارنی جنرل صاحب آپ یہاں کھڑے ہو کربیان جاری نہیں کر سکتے، ملک میں سیاسی انجینیئرنگ ہوتی رہی ہے اور تاثر ہے کہ سپریم کورٹ بھی ملوث رہا ہے، خط میں جج کہہ رہے ہیں یہ سیاسی انجینیئرنگ اب بھی جاری ہے، ججز نے جو انگلی اٹھائی ہے وہ ملک میں مداخلت کے کلچر کی ہے اوریہ سب سے اہم سوال ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمیشہ کے لیے یہ سلسلہ بند کرنا ہوگا۔ ’ہمیں اس معاملے کو ماضی کے کسی واقعہ یا ردعمل کے ساتھ جوڑ کر نہیں بلکہ ایک موقع کے طور پر دیکھنا چاہیے کہ یہ سلسلہ بند کیسے کیا جا سکتا ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ’اگر چیف جسٹس کچھ نہ کرے تو کیا ہوگا۔ ہمیں چیف جسٹس ہائی کورٹ کو با اختیار بنانا ہوگا۔ میرے خیال میں ادارہ جاتی طور پر طریقہ کار ڈسٹرکٹ جج سے سپریم کورٹ تک طے کرنا ہوگا۔ ہم ایک کوڈ بنا کر طریقہ کار طے کریں، اس پر معاونت کریں تاکہ ہم اس باب کو بند کریں۔‘
بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ عید کے بعد تمام ججز آ جائیں گے تو روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کریں گے۔
’فی الحال کے لیے حکم ہے کہ عدلیہ میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔‘ انھوں نے اٹارنی جنرل سے کہا آپ تجاویز دیں کہ اس معاملے کی تحقیقات کیسے ہوں گی۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انکوائری کمیشن یا سپریم جوڈیشل کونسل کے فورم کے علاوہ کوئی تیسرا فورم نہیں ہے۔

Views= (254)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین