عدالتی امور میں’مداخلت‘، چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس میں ججوں کے خط کا جائزہ

ایک جج ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوکر ہسپتال داخل ہوئے

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل فل کورٹ کا اِن کیمرا اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کا جائزہ لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اس سے قبل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور اعوان کی ملاقات ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں ججوں کے جانب سے لکھے گئے خط اور اس سے متعلق قانونی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 6 ججز نے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور دباؤ ڈال کر اثرانداز ہونے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔
خط میں ججز نے جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی کے 2018 میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کرانے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے ماضی قریب میں عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی مداخلت، ججوں کے اہل خانہ، دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے ان پر اثر انداز ہونے کی کوششوں اور کچھ غیرمعمولی اقدامات کی نشان دہی کی ہے۔
ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو اپنے خط میں لکھا کہ ’ٹیریان وائٹ کیس کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر بنچ میں شامل ججز کا اختلاف سامنے آیا۔ پریذائیڈنگ جج نے اپنی رائے کا ڈرافٹ بھجوایا جس سے دیگر دو ججز نے اختلاف کیا۔‘
الزام عائد کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے آپریٹوز نے پٹیشن ناقابل سماعت قرار دینے والے ججز پر دوستوں، رشتہ داروں کے ذریعے دباؤ ڈالا جس کے بعد ایک جج شدید ذہنی دباؤ کے باعث ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوکر ہسپتال داخل ہوئے۔
خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’اس کے باوجود آئی ایس آئی کے آپریٹوز کی مداخلت جاری رہی۔ ججز نے اپنے خط میں الزام عائد کیا ہے کہ مئی 2023ء میں ہائی کورٹ کے ایک جج کے برادر نسبتی کو مسلح افراد نے اغوا کیا اور 24 گھنٹے بعد چھوڑا۔‘
’انہیں حراست کے دوران الیکٹرک شاک لگائے گئے اور وڈیو بیان ریکارڈ کرنے پر مجبور کیا گیا، ایک ہائیکورٹ جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے استعفی دینے پر دباؤ ڈالا گیا۔‘
عدالت عالیہ کے چھ ججز نے خط میں بتایا کہ 10 مئی 2023 کو چیف جسٹس کو مراسلہ لکھا کہ آئی ایس آئی آپریٹوز کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
ججز کا کہنا ہے کہ ایک جج سرکاری گھر میں شفٹ ہوئے تو ان کے ڈرائنگ روم اور ماسٹر بیڈ روم میں کیمرے نصب تھے۔ کیمرے کے ساتھ سم کارڈ بھی موجود تھا جو آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کسی جگہ پہنچا رہا تھا، جج اور اس کی فیملی کی پرائیویٹ وڈیو اور یو ایس بی دریافت ہوئیں۔

Views= (499)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین