سب سے خطرناک ترامیم کونسی؟ مسودہ منظر عام پر آنے کے بعد وکلا کے خدشات میں اضافہ

عدلیہ کے حوالے سے آئینی ترمیم کا مسودہ منظر عام پر آنے کے بعد وکلا کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے، مسودے کے مطابق حکومت 53 ترامیم کرنا چاہتی ہے، تاہم، چند وکلا کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ہونے والی ترامیم سب سے خطرناک ہیں۔
ترامیم کی تفصیلات کے مطابق حکومت آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرکے سنیارٹی کے اصول کو ختم کرکے سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت میں اپنی مرضی کے ججز لگانا چاہتی ہے۔
مسودے کے مطابق سپریم کورٹ اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تعیناتی قومی اسمبلی کی کمیٹی تین سینئیر ججز میں سے کرے گی۔
اس کے علاوہ وکلا آئین کے آرٹیکل 200 میں ترامیم کو بھی عدلیہ کی آزادی کے منافی سمجھتے ہیں، اس ترمیم کے مطابق صدر مملکت جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر کسی جج کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری میں ٹرانسفر کرسکیں گے۔
اس سے پہلے کسی ہائیکورٹ کے جج کو اس کی مرضی کے بغیر ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 243 میں بھی ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے مطابق مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتیاں، دوبارہ تعیناتیاں، مدت ملازمت میں توسیع پاک فوج کے قوانین کے مطابق ہوں گی، اور ان قوانین تو تبدیل کرنے کیلئے آئندہ اسی آرٹیکل میں ترامیم کرنا ہوں گی۔
حکومت نے آئین کے آرٹیکل 239 میں ترمیم تجویز کی ہے، جس کے مطابق کسی بھی آئینی ترمیم کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، اور اگر کوئی عدالت ترمیم کے خلاف فیصلہ دیتی تو بھی وہ حکم نامہ مؤثر نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ ملک میں آئینی عدالت کا قیام ہے جو ملک کی سب سے بڑی عدالت ہوگی اور تمام اہم آئینی مقدمات سنے گی۔
مجوزہ آئینی ترامیم بل کے مسودے کے مطابنق آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی، سپریم کورٹ کا جج آئینی عدالت میں تین سال کیلئے جج تعنات ہوسکے گا۔
اس کے علاوہ جوڈیشل کمیشن کے پاس ہائیکورٹس کے سالانہ آڈٹ کا اختیار ہوگا، اگر کمیشن کسی جج کی کارکردگی کو غیر تسلی بخش پائے تو اسے بہتری کیلئے مخصوص مدت دی جائے گی ، اور اگر مخصوص مدت کے بعد بھی کمیشن مطمئن نہ ہوا تو جج کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دی جائے گی۔

Views= (220)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین