نواز شریف کے دو بڑے فیصلے ن لیگ کی مستقبل کی سیاست پر کیسے اثرانداز ہوں گے؟

یہ فیصلہ عدلیہ کا ہے کہ وہ کسی کو فریق بناتی ہے یا نہیں !

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے دو بڑے فیصلے کرتے ہوئے شہباز شریف سے پارٹی صدارت واپس لیتے ہوئے خود پارٹی صدر بننے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط کے معاملے سپریم کورٹ میں زیرِسماعت کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’نواز شریف نے عید کے بعد سیاسی میدان میں متحرک ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ پارٹی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت اور پارٹی معاملات کو الگ الگ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں نواز شریف نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ پارٹی کی صدارت بھی خود سنبھالیں گے۔‘
’اس سلسلے میں جلد ہی مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا جہاں پارٹی کے نئے صدر کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہو گا کہ نواز شریف پارٹی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد اس منصب پر واپس منتخب ہوں گے بلکہ پرویز مشرف دور میں بھی انہیں اس منصب سے علیحدہ ہونا پڑا تھا اور شہباز شریف مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہوئے تھے تاہم سنہ 2010 میں نواز شریف دوبارہ پارٹی کے صدر منتخب کیے گئے تھے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف سمجھتے ہیں کہ سیاسی محاذ پر مسلم لیگ ن کو متحرک رکھنے کے لیے اسے تنظیمی طور پر مضبوط کرنا ضروری ہے۔ وہ اس سلسلے میں خاموشی سے کام کر رہے تھے اور پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کا سلسلہ بھی جاری تھا جس کے نتیجے میں یہ طے پایا ہے کہ نواز شریف ہی پارٹی کے صدر ہوں گے۔‘
نواز شریف کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اصل میں نواز شریف کی ہی جماعت ہے اور اس جماعت کے نام میں شامل لفظ ن نواز شریف ہی ہیں۔ پارٹی کے رہنما اور کارکنان شہباز شریف کی موجودگی میں بھی پارٹی کے اہم فیصلوں کے لیے نواز شریف کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ فیصلے نواز شریف ہی کرتے ہیں۔ اس لیے اگر نواز شریف پارٹی صدارت سنبھالتے ہیں تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود کے مطابق موجودہ حالات میں نواز شریف وزیراعظم بنتے دکھائی تو نہیں دیتے تاہم اپنی پارٹی کی سطح پر سیاست کرتے ہوئے وہ عوامی سطح پر پارٹی کو مضبوط کرنے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں جس کا حتمی فائدہ اگر نواز شریف کو نہ بھی ملا تو آئندہ انتخابات میں مریم نواز کو مل سکتا ہے۔
دوسری جانب ایک اور مسلم لیگی رہنما نے بتایا کہ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط اور خفیہ ایجنسوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے معاملے پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس میں نواز شریف نے فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔
’نواز شریف اس سلسلے میں اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کر رہے ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ اداروں کی مداخلت کے باعث ہی ایک منصوبہ بندی کے تحت انہیں پانامہ کے نام پر اقامہ میں سزا سنائی گئی اور اقتدار سے باہر کیا گیا۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ اس منصوبہ بندی میں سابق چیف جسٹس صاحبان جن میں ثاقب نثار اور اصف سعید کھوسہ بھی شامل ہیں، اب اس معاملے کو کھل کر سامنے آنا چاہیے۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما کے مطابق نواز شریف نے قانونی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کے فیصلے کی بنیاد پر اس میں فریق بننے کے لیے جواز پیش کریں۔ کیونکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جو الزامات خفیہ اداروں اور ان کے سربراہان پر عائد کیے تھے انہی کی بنیاد پر نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی گئی تھی۔
قانونی ماہر عارف چوہدری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی کیس میں فریق بننے خواہش تو کی جا سکتی ہے تاہم یہ فیصلہ عدلیہ کا ہے کہ وہ کسی کو اس میں فریق بناتی ہے یا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جتنے فریق ہوں گے کہ اس کا دائرہ کار اتنا ہی وسیع ہوتا جائے گا اور پھر اسے سمیٹنا نہ صرف مشکل ہو جاتا ہے بلکہ اس کے نتائج بھی بعض اوقات قابو سے باہر ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق یہ بات تو سچ ہے کہ ماضی میں بھی عدلیہ کے معاملات میں مداخلت ہوتی رہی ہے اور نواز شریف کی سزائیں بھی ختم ہو چکی ہیں، ان کا شکوہ بھی جائز ہے تاہم اس وقت عدلیہ کے سامنے چھ ججز کا خط ہے جس کا جائزہ فل کورٹ لے رہی ہے۔ سپریم کورٹ اس معاملے کو انتظامی سطح پر حل کرنا چاہتی تھی تاہم لیگل کمیونٹی کے دباؤ پر اسے ازخود نوٹس میں تبدیل کیا گیا اس لیے بظاہر یہ دکھائی نہیں دے رہا کہ سپریم کورٹ نواز شریف کی فریق بننے کی درخواست کو قبول کرے گی۔

Views= (808)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین