9 مئی کے ہنگاموں پر عمران خان کے خلاف کون سی دفعات کے تحت مقدمات درج ہیں؟

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے خلاف کم از کم تین ایسی ایف آئی آرز درج کی جا چکی ہیں جو نو مئی کے ہنگاموں، اموات اور توڑ پھوڑ کے تناظر میں درج کی گئی ہیں۔
ان میں سے ایک مقدمے کے تحت منگل کے دن انھیں نو مئی کو لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت بھی کی گئی تھی تاہم عمران خان نے جے آئی ٹی کو پیشکش کی ہے کہ وہ سوالنامے یا بذریعہ ویڈیو لنک زمان پارک سے تحقیقات میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔۔
لیکن یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ عمران خان کے خلاف نو مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے تناظر میں کن دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے جبکہ عمران خان تو نو مئی اور اس کے بعد کئی دن تک زیرحراست تھے اور براہ راست کسی بھی توڑ پھوڑ کا حصہ نہیں تھے۔
لاہور کے تھانہ سرور میں پاکستان تحریک انصاف کی ’قیادت اور کارکنان‘ کے خلاف درج ایف آئی آر میں 302 اور 109 سمیت 20 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان میں انسداد دہشت گردی کے ناقابل ضمانت دفعات بھی شامل ہیں۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق نو مئی کو پی ٹی آئی کے تقریبا 1500 کارکنان نے کور کمانڈر ہاؤس لاہور کی جانب پرتشدد احتجاج شروع کیا۔
متن میں کہا گیا ہے کہ یہ کارکنان مسلح تھے اور اسلحے کے علاوہ ان کے پاس ڈنڈے اور پٹرول بم بھی تھے جبکہ یہ راستے میں جلاؤ گھیراؤ کر رہے تھے اور پولیس اہلکاروں پر حملہ آور بھی ہوئے۔
ایف آئی آر کے مطابق مشتعل ہجوم میں موجود کارکنان کہہ رہے تھے کہ ’ہماری قیادت جس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، فرخ حبیب، حماد اظہر، مسرت جمشید چیمہ، جمشید چیمہ، زبیر نیازی، اسد زمان، مراد سعید، علی امین گنڈاپور اور دیگر نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم حکومتی خصوصا عسکری اداروں کے دفاتر اور اہم عمارات کو نشان عبرت بنا دیں۔‘
اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے اس مشتعل ہجوم میں شامل پی ٹی آئی لیڈران نے اسلحے سے فائرنگ کی جس سے دو افراد ہلاک بھی ہوئے۔
ایف آئی آر کے مطابق پی ٹی آئی کی ’قیادت اور کارکنان نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امن عامہ کو پامال کیا، پولیس ملازمین اور افسران پر جان لیوا حملے کیے اور عسکری قیادت کے خلاف نعرے بازی کی۔‘
اس مقدمے میں یہ بھی درج ہے کہ مشتعل کارکنان نے ’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘ اور ’عمران کو رہا کرو‘ جیسے نعرے لگائے اور علاقے میں خوف و ہراس اور دہشت پھیلائی۔
عسکری تنصیبات پر حملے کا دوسرا کیس لاہور ہی کے تھانہ گلبرگ میں درج ہے۔ اس مقدے کی دفعات میں بھی 302، انسداد دہشت گردی اور معاونت جرم کی دفعات سمیت 19 دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے۔
اس ایف آئی آر کے متن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے لیڈران اور کارکنان کہہ رہے تھے کہ انھیں ’لیڈر عمران خان، شاہ محمود قریشی، مراد سعید، اسد عمر اور کور کمیٹی کے دیگر ممبران نے ہدایت کی ہے کہ ہر طرف آگ لگا دو اور املاک کی توڑ پھوڑ کرو تاکہ حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکے۔‘
ایف آئی آر میں عسکری ٹاور پر مظاہرین کے حملے کو ’باہمی منصوبہ بندی اور گھناؤنی سازش‘ قرار دیا گیا ہے۔
صحافی شاہد اسلم کے مطابق لاہور ہی کے تھانہ شادمان میں بھی انسداد دہشت گردی اور معاونت جرم سمیت متعدد دفعات کے تحت پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف تھانہ شادمان پر حملے کا مقدمہ درج ہے۔
اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ان پی ٹی آئی کارکنان نے مرکزی قیادت کے اکسانے پر یہ حملے کیے، اور یہ کہ مرکزی قیادت کو ’چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے گرفتاری سے پہلے اداروں کے خلاف مجرمانہ سازشکی ہدایت دے رکھی تھی۔‘
تاہم راولپنڈی کے تھانہ آر اے بازار میں درج جی ایچ کیو پر حملے کی ایف آئی آر میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو شامل تفتیش کرنے یا اس ہجوم سے تعلق یا ہجوم کو ہدایات دینے کی مد میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا ہے۔

Views= (486)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین