چینی سرمایہ کاروں کی سندھ کے آموں پر نظر

چینی سرمایہ کاروں نے صوبہ سندھ کی آم کی اقسام میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے سائنسدانوں اور ترقی پسند کاشتکاروں سے سندھ کے آم پیدا کرنے والے علاقوں میں کاروباری مواقع کے بارے میں بات چیت کی، جبکہ شرکاء نے منافع بخش بین الاقوامی منڈیوں میں آم کی ویلیو ایڈیشن پروگرام کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔
بین الاقوامی ممالک میں کاروباری تعلقات کی چینی کنسلٹنٹ محترمہ جنگلیان یاؤ کی قیادت میں مختلف چینی کمپنیوں کے تین رکنی وفد نے سندھ ایگریکلچرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری کے علاوہ چن پینگ، ہی منگ چُن اور پاکستانی تاجر اشفاق حسین اور سید شکیل سے ملاقات کی۔
ملاقات میں ڈین ڈاکٹر منظور علی عبدرو، ڈاکٹر آسیہ اکبر پنہور، ڈاکٹر تحسین فاطمہ میانو، ڈاکٹر شہزور گل نے شرکت کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔
ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی کے ماہرین آم کی ویلیو ایڈیشن، مینگو پروسیسنگ اور اس کی ضمنی مصنوعات پر کام کر رہے ہیں اور ایسی مصنوعات برآمدی معیار کی ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے گریجویٹس اور ماہرین اس ٹیکنالوجی کو دیہی خواتین تک بھی منتقل کر رہے ہیں اور وہ خواتین اپنے گھروں میں منافع بخش کاروبار کر رہی ہیں، جبکہ یونیورسٹی کے ماہرین نے آم کی مصنوعات اور بیماریوں سے پاک نرسریوں پر بھی کامیابی سے تحقیق کی ہے۔
وائس چانسلر نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے دوسرے مرحلے میں زراعت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔
چن پینگ نے کہا کہ انہوں نے سندھ اور جنوبی پنجاب میں آم پیدا کرنے والے علاقوں کا دورہ کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ خاص طور پر ان آموں کی اقسام تلاش کر رہے ہیں، جو مئی سے ستمبر تک دستیاب ہو سکتی ہیں۔ ان آموں کو بڑی تعداد میں پروسیس کیا جائے گا اور ویلیو ایڈیشن کے بعد برآمد کیا جائے گا۔
محترمہ جِنگلین یاؤ نے کہا کہ ہم آم کے گودے کی تیاری کے لیے ابتدائی طور پر آم کی موزوں ترین اقسام کی تلاش کر رہے ہیں، جس کے لیے ہم پہلے مرحلے میں 6000 ٹن آموں کی خریداری اور پروسیسنگ کا منصوبہ رکھتے ہیں، جس کے لیے ہمیں مخصوص وزن، اعلیٰ گودے اور اشیاء کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر محمد اسماعیل کنبھار نے کہا کہ پاکستان سالانہ 1.8 ملین ٹن آم پیدا کرتا ہے، لیکن صرف ایک فیصد، جو کہ 50،000 ٹن ہے، برآمد کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین آم میں بیماریوں کے خاتمے کے لیے اپنا کام کر رہے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز کے ماہرین ڈاکٹر آسیہ اکبر پنہور اور ڈاکٹر تحسین فاطمہ میانو نے آم کی ویلیو چین اور اس کی ضمنی مصنوعات اور اس سلسلے میں سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی کی کاوشوں کے بارے میں بریفنگ دی۔

Views= (444)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین