آئی ایم ایف سے معاہدے میں مسلسل تاخیر، ’پس پردہ کچھ چل رہا ہے‘

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان معاہدہ مزید تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔
پاکستان کے مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کے 17 مئی تک کے اجلاسوں کا شیڈول جاری ہو گیا ہے جس میں پاکستان سے مذاکرات کا معاملہ ایجنڈے پر نہیں ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان رواں برس فروری میں معاہدہ ہونا تھا لیکن اس وقت سے یہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔
پاکستانی حکام نے ایک سے زائد مرتبہ کہا ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے نویں جائزے میں شامل بیشتر شرائط پوری کر لی ہیں اور منی بجٹ میں کئی نئے ٹیکس بھی لگائے ہیں تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے انہیں کوئی مثبت اشارہ نہیں مل سکا۔
دوسری جانب پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت بلند سطح پر دیکھی جا رہی ہے اور روپے پر دباؤ برقرار ہے۔
آئی ایم ایف سے جلد معاہدہ نہ ہو پانے کے پاکستان پر ممکنہ طور پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں، اس حوالے سے معاشی ماہر اور تجزیہ کار ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پاکستان درآمدات کے لیے جو چھوٹی موٹی ادائیگیاں کر رہا ہے، وہ کمرشل بینکوں سے قرض کے طور پر حاصل کی جا رہی ہیں۔ یہ حکومت کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے لیکن وقتی گزارا چل رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوا تو آئندہ دنوں میں معاشی بحران میں کافی اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔‘
’خاص طور پر جب بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا وقت آئے گا جن کا حجم بہت زیادہ ہے، تو حکومت مشکل میں پڑ جائے گی۔ کیونکہ اتنی رقم کمرشل بینک تو ادا نہیں کر سکتے۔‘
’اس صورت میں ڈیفالٹ کی سچویشن پیدا ہو سکتی ہے۔‘
’کچھ پردے کے پیچھے ہو رہا ہے‘
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان معاملات طے نہ ہو پانے سے متعلق ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا تھا کہ ’میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ بہت کچھ پس پردہ چل رہا ہے۔ میں 2015 سے یہی کہتا چلا آ رہا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’2013 سے 2018 کے درمیان آئی ایم ایف نے پاکستان کو 13 ویورز (Waivers) دیے یعنی اگر آپ نے فلاں فلاں شرائط پوری نہ کیں تو اس کے نتائج ہوں گے۔ وہ ہمیں(پاکستان کو) طویل پلان دیتے رہے ہیں۔‘
’میں سمجھتا معاہدے میں جو تاخیر ہو رہی ہے اس کے پیچھے کچھ سیاسی وجوہات ہیں۔ یہ میرا خدشہ ہے جس کا میرے پاس کوئی ٹھوس ثبوت تو نہیں البتہ کچھ عرصہ قبل سینیٹر رضا ربانی نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ حکومت بتائے کہ آئی ایم ایف نے کون سی شرائط رکھی ہیں۔‘
’مجھے لگتا ہے کچھ پردے کے پیچھے ہو رہا ہے جس پر عمل پاکستان کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔‘
’اگر آئی ایم ایف سے ڈیل نہ ہوئی پاکستان کے لیے مشکل ہو گی۔ ملک معاشی طور پر stuck ہو جائے گا۔‘
معاشی امور پر گہری نگاہ رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مہتاب حیدر سمجھتے ہیں کہ ابھی تک پاکستان میں بیرونی فناسنگ سے متعلق شرائط پوری نہیں کی ہیں۔
’30 جون سے قبل معاہدہ ہونا ناگزیر ہے‘ مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف کی بیل آوٹ پیکج ملنے سے قبل سٹاف لیول معاہدہ ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوا تو بہت فرق پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’30 جون کو آئی ایم ایف کا یہ پروگرام ختم ہو رہا ہے۔ اس سے قبل پاکستان کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ ہونا بہت ضروری ہے۔‘
’یہ بہت اہم وقت ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام ختم ہو سکتا ہے یا پھر اس کی تاریخ میں کچھ توسیع ہو جائے گی۔‘
مہتاب حیدر کے بقول ’اس وقت معاملہ آئی ایم ایف کے نویں جائزے میں اٹکا ہوا ہے۔ ابھی تو 10واں اور 11واں جائزہ باقی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام ختم ہونے کی صورت میں آپ کو جو پیسے ملنا متوقع ہوتے ہیں، وہ نہیں ملتے۔‘
پاکستان کے وزیر خارجہ نے گزشتہ ماہ 19 اپریل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے چھ ماہ میں 11 ارب ڈالر کی بروقت ادائیگی کی اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دیں۔‘
انہوں سابق حکمراں جماعت تحریک انصاف پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پی ٹی آئی حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔‘

Views= (656)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین