بہن بھائیوں کی لڑائی سے پریشان والدین ان تجاویز پر عمل کریں

بہن بھائیوں کے درمیان ہونے والی لڑائی سے پریشان والدین اپنے بچوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں اور ان لڑائی جھگڑوں کے اثرات کتنے خطرناک ہوتے ہیں؟ آئیے جانتے ہیں۔ 12 سالہ احمد اور 15 سالہ عمر نے اپنے والد سے کھانے لانے کی فرمائش کی تھی، والد نے بچوں کی فرمائش پوری کی اور پوری فیملی نے ایک ساتھ مل کر پیزا انجوائے کیا، پیزا کا آخری سلائس ابھی رہتا تھا کہ احمد اور عمر نے ضد کرنا شروع کردی یہ آخری سلائس میں کھاؤں گا، دیکھتے ہی دیکھتے دونوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا اور والدین سر پکڑ کر رہ گئے۔ اسی طرح کی دیگر چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے ہر بہن بھائیوں کے درمیان ہوتے ہیں، جن میں کبھی ایک دوسرے کے کپڑے پہننے پر لڑائی، گھر کا لاڈلا بننے پر لڑائی اور دیگر کئی وجوہات شامل ہیں۔ بہن بھائیوں میں لڑائی ہوجانے کے بعد صلح بھی ہو جاتی ہے، لیکن روزانہ کے لڑائی جھگڑوں سے والدین بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔
بہن بھائیوں کی لڑائی کے پیچھے نفسیات کیا کہتی ہے؟
کئی گھرانوں میں بہن بھائیوں کے درمیان لڑائیاں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ والدین کی پہلی اولاد ان کا بڑا ذریعہ اور سکون کا باعث ہوتے ہیں لیکن دوسری اولاد آجانے کے بعد دونوں بچے ہر معاملے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگتے ہیں، کیونکہ پہلی اولاد کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس پر والدین کی توجہ کم ہوجائے گی۔ والدین ایسا نہ بھی چاہتے ہوں لیکن بچوں کو احساس ہونے لگتا ہے کہ ایک اولاد کو زیادہ توجہ دی جارہی تو دوسری اولاد کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’بہن بھائیوں کے درمیان مقابلہ مستقبل میں دشمنی میں بدل سکتا ہے تاہم ہر مقابلہ منفی نہیں ہوتا، کئی بچے ایسا کرنے سے زیادہ محنت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، لیکن اگر یہ مقابلہ ایک حد سے بے قابو ہوجائے تو رشتے میں دڑاریں بھی آسکتی ہیں‘۔ تاہم ایسی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے والدین کو کوشش کرنی چاہیے کہ اولاد کے درمیان فرق نہ کریں، ہر کسی سے برابری کا برتاؤ کریں اور مسائل کو غصے کے بجائے خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کریں، اور یہ کرنا والدین کے لیے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔
برابری کی بنیاد پر تعریف کریں
چوائس پوائنٹ کے کلینیکل ڈائریکٹر جارڈن ماسٹرڈومینیکو کہتے ہیں کہ ’بچوں میں لڑنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ والدین ہر اولاد کی انفرادی بنیاد پر تعریف کرتے ہیں‘۔ اگر ایک بچہ باہر کھیلنا پسند کرتا ہے تو آپ بھی ان کے ساتھ باہر کھیلیں اگر دوسرا بچہ اپنی پسندیدہ کتاب پڑھنے کے لیے گھر میں وقت گزارنا پسند کرتا ہے، تو آپ بھی اس کے پاس بیٹھ جائیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر بچے کی اپنی صلاحیت اور خوبی ہے۔ بچے کی ایک خصوصیت یا صلاحیت کی بنیاد پر اس پر لیبل لگانا بھی غلط ہے اس سے دوسرے بچے کو احساس کمتری کا احساس ہوسکتا ہے، مثال کے طور پر اگر آپ بولیں گے کہ یہ بچہ ’کھیلنے میں ماہر ہے‘ جبکہ دوسرا بچہ ’پڑھنے میں ہوشیار ہے‘۔ ایسا کرنے کے بجائے یہ بولیں کہ ’احمد کھیلنے میں ماہر ہے اور اسکول میں بھی محنت کرتا ہے‘۔ ایسا کرنے سے بچوں میں ایک دوسرے سے حسد اور مقابلہ کم رہےگا۔
والدین جج بن کر فیصلہ نہ کریں
عام طور پر بچوں کے درمیان لڑائی ہونے کے بعد صلح بھی خود کرنا زیادہ بہتر ہے، اگر والدین بہن بھائیوں کی ہر لڑائی میں جج کے طور پر فیصلہ کریں گے تو بچے اپنے مسائل خود حل کرنا کبھی نہیں سیکھیں گے، اس کا حل یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں سے پوچھیں کہ کیا ایک دوسرے کے نام بگاڑنا، مارنا، جھگڑنا اور چلانا کیا اچھی بات ہے؟ کیا یہ گھر کے اصول ہیں؟
کسی ایک بچے کی حمایت نہ کریں
اکثر والدین یہ بڑی غلطی کرتے ہیں کہ لڑائی کے بعد صلح کے دوران ایک بچے کی مخالفت کرتے ہیں اور ایک بچے کو صحیح ثابت کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے دونوں بچوں میں حسد پیدا ہوسکتی ہے، اور مستقبل میں یہ لڑائی شدت اختیار کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں والدین کو چاہیے کہ دونوں بچوں کی وجوہات ، مشکلات اور رائے کو سمجھنے کی کوشش کریں، والدین اپنا غصہ کنٹرول میں رکھتے ہوئے اطمینان سے بات کو سمجھائیں۔
یاد رکھیں
یہ بات یاد رکھیں کہ بہن بھائیوں کے درمیان جھگڑے ہر گھر میں عام سی بات ہے لیکن اس بات کا دھیان رکھیں کہ مستقبل میں یہ لڑائی دشمنی کا سبب نہ بنے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج میں’بہن بھائیوں کے رویہ ’پر ہونے والی پانچ سالہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہن بھائیوں کی لڑائی اُنہیں مشکل وقت اور آئندہ زندگی میں اہم تعلقات کے لئے تیار کرتی ہے ، یعنی اگر کنٹرول سے باہر نہ ہوتو یہ تعمیری عمل ہے۔ دو سے چھ سال کی عمر کے بچوں پر ہونے والی اس تحقیق کے نتائج سے محققین نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بہن بھائیوں میں بحث کا مطلب ہے زبان کی پیچیدگیوں کو سمجھنااور رابطے کی صلاحیت کو بہتر بنانا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کو اُس وقت تک مداخلت سے گریز کرنا چاہئے جب تک یہ لڑائی اور بحث خرابی کی طرف نہ جائے۔ بچوں کواختلافات باہمی طور پر حل کرنے کا موقع دینا چاہئے اور اُ ن کی رہنمائی صرف اُس وقت کریں جب ضرورت ہو۔

Views= (768)

Join on Whatsapp 1 2

تازہ ترین